آس حسن گمان سے ٹوٹی
شاخ پھل کے نشان سے ٹوٹی
مل گئی خاک ہو کے مٹی میں
اینٹ جو بھی مکان سے ٹوٹی
عرض احوال نا شناسوں سے
رگ انا کی زبان سے ٹوٹی
جس پہ دار و مدار کشتی تھا
ڈور وہ بادبان سے ٹوٹی
مسئلے دوستی کے حل نہ ہوئے
گفتگو درمیان سے ٹوٹی
دست دشمن سے تیر کیا چھوٹا
ایک بجلی کمان سے ٹوٹی
باب کرنوں کے کھل گئے راسخؔ
سد ظلمت اذان سے ٹوٹی
غزل
آس حسن گمان سے ٹوٹی
راسخ عرفانی