آرزوؤں کو اپنی کم نہ کرو
جینا چاہو تو کوئی غم نہ کرو
ہاتھ آئے خوشی تو خوش ہولو
دل ہو غمگیں تو آنکھ نم نہ کرو
جیسی مل جائے جس قدر مل جائے
پی بھی لو فکر بیش و کم نہ کرو
جیسی گزرے گزارتے جاؤ
ساز و ساماں کوئی بہم نہ کرو
لوگ کہتے پھریں تمہیں کیا کیا
آپ اپنے پہ یہ ستم نہ کرو
جی میں جو آئے وہ لکھو صاحب
جو زمانہ کہے رقم نہ کرو

غزل
آرزوؤں کو اپنی کم نہ کرو
جاوید کمال رامپوری