EN हिंदी
آرزوؤں کے دھڑکتے شہر جل کر رہ گئے | شیح شیری
aarzuon ke dhaDakte shahr jal kar rah gae

غزل

آرزوؤں کے دھڑکتے شہر جل کر رہ گئے

عین سلام

;

آرزوؤں کے دھڑکتے شہر جل کر رہ گئے
کیسے کیسے حشر خاموشی میں ڈھل کر رہ گئے

خاطر خستہ کا اب کوئی نہیں پرسان حال
کتنے دل داری کے عنوان تھے بدل کر رہ گئے

اب کہاں عہد وفا کی پاسداری اب کہاں
جو حقائق تھے وہ افسانوں میں ڈھل کر رہ گئے

اب کہاں وہ ساحلوں سے سیر طوفان حیات
اب تو وہ ساحل تلاطم میں بدل کر رہ گئے

حاصل غم یا غم حاصل میسر کچھ نہیں
زندگانی کے سبھی اسباب جل کر رہ گئے

ہائے وہ غم جو بیاں کی حد میں آ سکتے نہ تھے
قید اشک و آہ سے آگے نکل کر رہ گئے

الاماں حالات کی محشر خرامی الاماں
ڈگمگائے اس قدر گویا سنبھل کر رہ گئے

رہ گیا ہوں ایک میں تنہا ہجوم برق میں
ہم نوا سارے چمن کے ساتھ جل کر رہ گئے

بن تو سکتے تھے وہ طوفان قیامت خیز بھی
جو دھڑکتے ولولے اشکوں میں ڈھل کر رہ گئے

ایک وہ ہیں ڈالتے ہیں ماہ و انجم پر کمند
اور اک ہم ہیں کہ خوابوں سے بہل کر رہ گئے

جن کو حاصل تھا زمانے میں سکون اضطراب
اپنے ہی احساس کے شعلوں میں جل کر رہ گئے

جن کی خاموشی تھی مشہور زمانہ اے سلامؔ
آج ان کے منہ سے بھی شکوے نکل کر رہ گئے