EN हिंदी
آرزوؤں کا نگر چھوڑ آئے | شیح شیری
aarzuon ka nagar chhoD aae

غزل

آرزوؤں کا نگر چھوڑ آئے

رحمت امروہوی

;

آرزوؤں کا نگر چھوڑ آئے
ناز تھا جس پہ وہ گھر چھوڑ آئے

اک تری یاد بچا کر رکھ لی
سارا سامان سفر چھوڑ آئے

مدتوں یاد رکھے گی دنیا
ہم بھی اک ایسا ہنر چھوڑ آئے

گھر کے باہر بھی اداسی نہ گئی
گھر سے گھبرا کے جو گھر چھوڑ آئے

تھک گئے جب کوئی کھڑکی نہ کھلی
ہم وہیں دیدۂ تر چھوڑ آئے

اس کو آتے ہی بنے گی رحمتؔ
آج اک ایسی خبر چھوڑ آئے