آرزوؤں کا حسیں پیکر تراش
اک سراب صبح کا منظر تراش
اک گھروندا ریگ ساحل سے بنا
برف کے پتھر سے اک دلبر تراش
دیدۂ نمناک سے دریا بہا
آہ شعلہ بار سے محشر تراش
اس حصار ذات سے باہر نکل
گنبد بے در میں تو اک در تراش
بحر عشرت میں صدف ملتا نہیں
قطرۂ خوں ناب سے گوہر تراش
تیغ زنگ آلود کو پھر آب دے
جبر و استبداد کے پھر سر تراش
طائر خواہش کی لمبی ہے اڑان
اس کے بال و پر کو تو اکثر تراش

غزل
آرزوؤں کا حسیں پیکر تراش
سجاد سید