آرزوئیں سب خاک ہوئیں
سانسیں آخر چاک ہوئیں
منظر منظر خوشبوئیں
پل میں جل کر راکھ ہوئیں
دیکھ کے مردہ لفظوں کو
سوچیں بھی نمناک ہوئیں
پچھلے پہر جو ابھری تھیں
آوازیں خاشاک ہوئیں
روشن ہیں سپنوں کے الاؤ
اب راتیں بے باک ہوئیں
تیرے بدن کی شبنم سے
نظریں دھل کر پاک ہوئیں
تنہائی پا کر یادیں
ساجدؔ ہفت افلاک ہوئیں
غزل
آرزوئیں سب خاک ہوئیں
ساجد حمید