آرزوئیں نارسائی روبرو میں اور تو
کیا عجب قربت تھی وہ بھی میں نہ تو میں اور تو
جھٹپٹا خونی افق کی وسعتیں خاموشیاں
فاصلے دو پیڑ تنہا ہو بہو میں اور تو
خشک آنکھوں کے جزیروں میں بگولوں کا غبار
دھڑکنوں کا شور سرمہ در گلو میں اور تو
بارش سنگ ملامت اور خلقت شہر کی
پیار کے معصوم جذبوں کا لہو میں اور تو
اجنبی نظروں کے شعلے ہر طرف پھیلے ہوئے
دشمن جاں راہ و منزل کاخ و کو میں اور تو
نفرتوں کی گرد رستہ کاٹتی ہر موڑ پر
عشق کی خوشبو میں اڑتے کو بہ کو میں اور تو
احترام آدمی احساس غم مرگ انا
آج کس کس زخم کو کرتے رفو میں اور تو
غزل
آرزوئیں نارسائی روبرو میں اور تو
خاطر غزنوی