آرزوئیں کمال آمادہ
زندگانی زوال آمادہ
زندگی تشنۂ مجال جواب
لمحہ لمحہ سوال آمادہ
زخم کھا کر بپھر رہی ہے انا
عاجزی ہے جلال آمادہ
کیسے ہموار ہو نباہ کی راہ
دل مخالف خیال آمادہ
پھر کوئی نشتر آزما ہو جائے
زخم ہیں اندمال آمادہ
ہر قدم پھونک پھونک کر رکھیے
رہ گزر ہے جدال آمادہ
ہر نفس ظرف زما کیفیؔ
ہر نظر اشتعال آمادہ
غزل
آرزوئیں کمال آمادہ
حنیف کیفی