EN हिंदी
آرزو تھی کہ ترا دہر بھی شہرا ہووے | شیح شیری
aarzu thi ki tera dahr bhi shohra howe

غزل

آرزو تھی کہ ترا دہر بھی شہرا ہووے

حسن نعیم

;

آرزو تھی کہ ترا دہر بھی شہرا ہووے
تیری نسبت سے غزل ہم سر زہرا ہووے

کون دیتا ہے مجھے خواب کی مشعل ہر آن
آس بن کر نہ وہی قلب میں ٹھہرا ہووے

یہ نہ مہمان سرا ہے نہ ہوس کا کوچہ
دل میں وہ شخص بسے آ کے جو گہرا ہووے

موجۂ وقت میں روپوش ہے وہ ماہ تمام
چاندنی ہووے جہاں یاد کا بجرا ہووے

دھند ہی دھند نظر آیا جدھر بھی دیکھا
میری دنیا مرے ارماں کا نہ چہرا ہووے

دل کے آنگن میں کوئی آ کے نہ جائے واپس
اس علاقہ میں اگر عشق کا پہرا ہووے

اس کی تصویر میں یوں رنگ علامت رکھیو
وہ کہیں نور کہیں پھول کا گجرا ہووے

اتنی تاثیر تو فریاد کی قسمت ہو نعیمؔ
حاکم وقت بدل جائے جو بہرا ہووے