آرزو تھی ایک دن تجھ سے ملوں
مل گیا تو سوچتا ہوں کیا کروں
جسم تو بھی اور میں بھی جسم ہوں
کس طرح پھر تیرا پیراہن بنوں
راستہ کوئی کہیں ملتا نہیں
جسم میں جنموں سے اپنے قید ہوں
تھی گھٹن پہلے بھی پر ایسی نہ تھی
جی میں آتا ہے کہ کھڑکی کھول دوں
خودکشی کے سینکڑوں انداز ہیں
آرزو ہی کا نہ دامن تھام لوں
ساعتیں صنعت گری کرنے لگیں
ہر طرف ہے یاد کا گہرا فسوں
غزل
آرزو تھی ایک دن تجھ سے ملوں
شین کاف نظام