آرزو تدبیر ہو کر رہ گئی
جستجو تاخیر ہو کر رہ گئی
سرد سناٹا مسلط ہو گیا
بے حسی زنجیر ہو کر رہ گئی
سوچ کی آواز کتنی تیز ہے
خامشی تقریر ہو کر رہ گئی
جب بھی کی تحریر اپنی داستاں
تیری ہی تصویر ہو کر رہ گئی
کاٹ ہے الفاظ کی کتنی شدید
گفتگو شمشیر ہو کر رہ گئی
آہ یہ دن رین کی بے چین سوچ
جو مری تقدیر ہو کر رہ گئی
صید تخریب خرد ہے زندگی
حسرت تعمیر ہو کر رہ گئی
حرف سنجیدہ تھی روداد خرد
کتنی بے تاثیر ہو کر رہ گئی
عہد حاضر کی کتابی شاعری
فکر کی جاگیر ہو کر رہ گئی
میرے فکر و فن کی عظمت آخرش
شوخی تحریر ہو کر رہ گئی
کرشنؔ موہن خواب کی تعبیر بھی
درد کی تفسیر ہو کر رہ گئی
غزل
آرزو تدبیر ہو کر رہ گئی
کرشن موہن