آرزو رقص میں ہے وقت کی آواز کے ساتھ
زندگی نغمہ سرا ہے نئے انداز کے ساتھ
زندگی دیکھ نہ یوں اجنبی انداز کے ساتھ
ہم کو نسبت ہے تری چشم فسوں ساز کے ساتھ
اس کے مذکور سے لبریز ہیں نغمے اس کے
اس نے مرغوب کیا دل کو کس اعجاز کے ساتھ
یہ حقیقت میں زمانے کی خبر رکھتے ہیں
سہمے سہمے سے ہیں جو حسرت پرواز کے ساتھ
دل ہے سر چشمۂ نغمات اگر ٹوٹ گیا
کتنے نغمات بکھر جائیں گے اس ساز کے ساتھ
وقت کی بات ہے اب کوئی نہیں ان کا وقار
جو کبھی بات بھی کرتے تھے بڑے ناز کے ساتھ
کیا کہیں بن گئے ہم سب کی نظر کا مرکز
اس نے کیا دیکھ لیا اجنبی انداز کے ساتھ
عرشؔ جو درد میں ڈوبے ہوئے دل سے نکلے
چند شعلے بھی لپکتے ہیں اس آواز کے ساتھ

غزل
آرزو رقص میں ہے وقت کی آواز کے ساتھ
عرش صہبائی