EN हिंदी
آرزو ناکام ہو کر رہ گئی ہے | شیح شیری
aarzu nakaam ho kar rah gai hai

غزل

آرزو ناکام ہو کر رہ گئی ہے

قیصر صدیقی

;

آرزو ناکام ہو کر رہ گئی ہے
زندگی الزام ہو کر رہ گئی ہے

خواب تعبیروں کے معنی پوچھتے ہیں
نیند بے انجام ہو کر رہ گئی ہے

یاد بھی قاتل کی ہے شمشیر قاتل
رات خوں آشام ہو کر گئی ہے

وقت نے دستار کی صورت بدل دی
اب تو یہ احرام ہو کر رہ گئی ہے

زہر میں ڈوبی ہوئی اک مسکراہٹ
موت کا پیغام ہو کر رہ گئی ہے

ناچتی ہیں دھان کے کھیتوں میں پریاں
یہ گھٹا انعام ہو کر رہ گئی ہے

گفتگوئے دل بہ عنوان محبت
سر بسر الزام ہو کر رہ گئی ہے

گردش جام و سبو کو کیا ہوا ہے
گردش ایام ہو کر رہ گئی ہے