EN हिंदी
آرزو جن کی ہے ان کی انجمن تک آ گئے | شیح شیری
aarzu jin ki hai unki anjuman tak aa gae

غزل

آرزو جن کی ہے ان کی انجمن تک آ گئے

سرور بارہ بنکوی

;

آرزو جن کی ہے ان کی انجمن تک آ گئے
نکہت گل کے سہارے ہم چمن تک آ گئے

بے رخی سے آپ جب بیگانہ پن تک آ گئے
آج ہم بھی جرأت سخن تک آ گئے

مے کدہ پھر بھی غنیمت ہے جہاں اس دور میں
ایک ہی مرکز پہ شیخ و برہمن تک آ گئے

جل بجھے اہل جنوں لیکن کسی کو کیا خبر
کتنے شعلے خود اسی گل پیرہن تک آ گئے

معتبر ہو کر رہی دیوانگی اپنی سرورؔ
جتنے انداز جنوں تھے بانکپن تک آ گئے