EN हिंदी
آرزو ہے وفا کرے کوئی | شیح شیری
aarzu hai wafa kare koi

غزل

آرزو ہے وفا کرے کوئی

داغؔ دہلوی

;

آرزو ہے وفا کرے کوئی
جی نہ چاہے تو کیا کرے کوئی

گر مرض ہو دوا کرے کوئی
مرنے والے کا کیا کرے کوئی

کوستے ہیں جلے ہوئے کیا کیا
اپنے حق میں دعا کرے کوئی

ان سے سب اپنی اپنی کہتے ہیں
میرا مطلب ادا کرے کوئی

چاہ سے آپ کو تو نفرت ہے
مجھ کو چاہے خدا کرے کوئی

اس گلے کو گلہ نہیں کہتے
گر مزے کا گلا کرے کوئی

یہ ملی داد رنج فرقت کی
اور دل کا کہا کرے کوئی

تم سراپا ہو صورت تصویر
تم سے پھر بات کیا کرے کوئی

کہتے ہیں ہم نہیں خدائے کریم
کیوں ہماری خطا کرے کوئی

جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
ایسی جنت کو کیا کرے کوئی

اس جفا پر تمہیں تمنا ہے
کہ مری التجا کرے کوئی

منہ لگاتے ہی داغؔ اترایا
لطف ہے پھر جفا کرے کوئی