آرزوئے دل ناکام سے ڈر لگتا ہے
زندگانی ترے پیغام سے ڈر لگتا ہے
پھر کسی جذبۂ گمنام سے ڈر لگتا ہے
حسن معصوم پہ الزام سے ڈر لگتا ہے
شیشۂ دل پہ کوئی ٹھیس نہ لگنے پائے
تلخیٔ مے سے نہیں جام سے ڈر لگتا ہے
جس کو آغاز محبت کا نہیں ہے احساس
بس اسے عشق کے انجام سے ڈر لگتا ہے
وقت کے ساتھ بدل جاتی ہیں قدریں ہمدم
راہ پرخار میں آرام سے ڈر لگتا ہے
جس نے طوفان بلا خیز کا منہ توڑ دیا
کیوں اسے گردش ایام سے ڈر لگتا ہے
دیکھ کر قصر تمنا کی تباہی شاید
گلشن دل کے در و بام سے ڈر لگتا ہے
مہر تاباں کی قسم گیسوئے جاناں کی قسم
صبح نو تجھ سے نہیں شام سے ڈر لگتا ہے
صرف اللہ سے ڈرتی ہے عزیزؔ خستہ
کیا اسے تلخیٔ ایام سے ڈر لگتا ہے

غزل
آرزوئے دل ناکام سے ڈر لگتا ہے
عزیز بدایونی