EN हिंदी
آرزو دل میں بنائے ہوئے گھر ہے بھی تو کیا | شیح شیری
aarzu dil mein banae hue ghar hai bhi to kya

غزل

آرزو دل میں بنائے ہوئے گھر ہے بھی تو کیا

مضطر خیرآبادی

;

آرزو دل میں بنائے ہوئے گھر ہے بھی تو کیا
اس سے کچھ کام بھی نکلے یہ اگر ہے بھی تو کیا

نہ وہ پوچھے نہ دوا دے نہ وہ دیکھے نہ وہ آئے
درد دل ہے بھی تو کیا درد جگر ہے بھی تو کیا

آپ سے مجھ کو محبت جو نہیں ہے نہ سہی
اور بقول آپ کے ہونے کو اگر ہے بھی تو کیا

دیر ہی کیا ہے حسینوں کی نگاہیں پھرتے
مجھ پہ دو دن کو عنایت کی نظر ہے بھی تو کیا

صبح تک کون جئے گا شب تنہائی میں
دل ناداں تجھے امید سحر ہے بھی تو کیا

میں بدستور جلوں گا یہ نہ ہوگی مضطرؔ
میری ساتھی شب غم شمع سحر ہے بھی تو کیا