آپسی باتوں کو اخبار نہیں ہونے دیا
ہم نے یہ کمرہ ہوا دار نہیں ہونے دیا
بد گمانی کو کیا چائے پلا کر رخصت
ناشتے کا بھی طلب گار نہیں ہونے دیا
دل کے زخموں کی خبر ہونے نہ دی اشکوں کو
غم کا آنکھوں سے سروکار نہیں ہونے دیا
سخت لفظوں میں بھی دیتی ہے مزا بات اس کی
اس نے لہجے کو دل آزار نہیں ہونے دیا
رکھ دیے ہونٹوں پہ انگلی کی طرح ہونٹ اس نے
ایک شکوہ بھی نمودار نہیں ہونے دیا
اس نے نادان ہو، کہہ کر ہمیں اکسایا تھا
عمر بھر اس کو سمجھ دار نہیں ہونے دیا
چاہتیں پائیں ہیں منانؔ وفاؤں کے طفیل
جذبۂ عشق کو عیار نہیں ہونے دیا
غزل
آپسی باتوں کو اخبار نہیں ہونے دیا
منّان بجنوری