آپس میں کوئی ربط کا امکان بھی نہ تھا
دونوں طرف یہ مرحلہ آسان بھی نہ تھا
چارہ گروں کی پرسش پیہم کے باوجود
میں مطمئن نہ تھا تو پریشان بھی نہ تھا
پہلو بدل بدل کے وہ کرتا تھا گفتگو
میں سب سمجھ رہا تھا کہ انجان بھی نہ تھا
بات اس کی دل میں میرے اترتی چلی گئی
وہ اجنبی تھا اور مرا مہمان بھی نہ تھا
کیوں مجھ کو میزبانی کا موقع نہ مل سکا
میں اس قدر تو بے سر و سامان بھی نہ تھا
وہ کتنا سرد مہر تھا معلوم ہو گیا
وعدہ خلاف ہو کے پشیمان بھی نہ تھا
کوثرؔ امیر شہر سے ملنے میں عذر کیوں
کچھ فائدہ نہیں تھا تو نقصان بھی نہ تھا

غزل
آپس میں کوئی ربط کا امکان بھی نہ تھا
مہر چند کوثر