EN हिंदी
آپ شاید بھول بیٹھے ہیں یہاں میں بھی تو ہوں | شیح شیری
aap shayad bhul baiThe hain yahan main bhi to hun

غزل

آپ شاید بھول بیٹھے ہیں یہاں میں بھی تو ہوں

نصرت مہدی

;

آپ شاید بھول بیٹھے ہیں یہاں میں بھی تو ہوں
اس زمیں اور آسماں کے درمیاں میں بھی تو ہوں

حیثیت کچھ بھی نہیں بس ایک تنکے کی طرح
فکر و فن کے اس سمندر میں رواں میں بھی تو ہوں

بے سبب بے جرم پتھر شاہزادی بن گئی
بس یہی تھی اک صدائے بے زباں میں بھی تو ہوں

انکساری پائیداری سب روا داری گئی
جب تکبر نے کہا بڑھ کر میاں میں بھی تو ہوں

آج اس انداز سے تم نے مجھے آواز دی
یک بیک مجھ کو خیال آیا کہ ہاں میں بھی تو ہوں

تیرے شعروں سے مجھے منسوب کر دیتے ہیں لوگ
ناز ہے مجھ کو جہاں تو ہے وہاں میں بھی تو ہوں

روٹھنا کیا ہے چلو میں ہی منا لاؤں اسے
بے رخی سے اس کی نصرتؔ نیم جاں میں بھی تو ہوں