EN हिंदी
آپ پر جب سے طبیعت آئی | شیح شیری
aap par jab se tabiat aai

غزل

آپ پر جب سے طبیعت آئی

ذکی کاکوروی

;

آپ پر جب سے طبیعت آئی
روز و شب مجھ پہ قیامت آئی

ہائے برباد کیا ہے کیا کیا
راس ہم کو نہ محبت آئی

اے ہوس کار تری نظروں میں
کب بھلا میری حقیقت آئی

زندگی بیت گئی ہے یوں ہی
جب بھی آئی شب فرقت آئی

ظلم گو اس نے بہت بار کئے
لب پہ میرے نہ شکایت آئی

تیری خاطر سے جہاں کو چھوڑا
پھر بھی تجھ کو نہ محبت آئی

دل بیتاب ہے تڑپا کیا کیا
جب کبھی یاد وہ صورت آئی

ان فسانوں میں جہاں کے اکثر
کچھ نظر مجھ کو حقیقت آئی

آپ معصوم بہت تھے پہلے
آپ کو کب سے شرارت آئی

اے ذکیؔ عشق کے ہاتھوں ہم پر
جب بھی آئی تو مصیبت آئی