آپ کیوں چھیڑتے ہیں دیپک راگ
شہر میں لگ رہی ہے خود ہی آگ
اٹھ رہا ہے حریم دل سے دھواں
لٹ رہا ہے سہاگنوں کا سہاگ
شعلہ ساماں ہوئی ہے تاریکی
کیسے جاگے ہیں روشنی کے بھاگ
جانے کس کس ہوس کو دیں گے جنم
بوتلوں کے اڑا چکے جو کاگ
لاگ میں تھی کبھی لگاؤ کی شان
اب لبوں میں لگاؤ کی ہے لاگ
کف دریا کا دیکھیے انجام
بے سبب لائیے نہ منہ جھاگ
جاتے لمحے دہائی دیتے ہیں
نئے اطوار کے طریق پہ جاگ
مسکراتا ہے کھیت سرسوں کا
توڑتی ہیں جو گاؤں والیاں ساگ
سرکنڈوں میں ہے کینچلی اٹکی
کہیں لہرا کے چھپ گیا ہے ناگ
چاند پر جو کمند ڈالتے ہیں
مجھ سے کہتے ہیں زندگی بھی تیاگ

غزل
آپ کیوں چھیڑتے ہیں دیپک راگ
قیوم نظر