آپ کیوں بیٹھے ہیں غصے میں مری جان بھرے
یہ تو فرمائیے کیا زلف نے کچھ کان بھرے
جان سے جائے اگر آپ کو چاہے کوئی
دم نکل جائے جو دم آپ کا انسان بھرے
لیے پھرتے ہیں ہم اپنے جگر و دل دونوں
ایک میں درد بھرے ایک میں ارمان بھرے
دامن دشت نے آنسو بھی نہ پوچھے افسوس
میں نے رو رو کے لہو سیکڑوں میدان بھرے
تیغ قاتل کو گلے سے جو لگایا مضطرؔ
کھنچ کے بولی کہ بڑے آئے تم ارمان بھرے
غزل
آپ کیوں بیٹھے ہیں غصے میں مری جان بھرے
مضطر خیرآبادی