EN हिंदी
آپ کو گردش ایام سے ڈر لگتا ہے | شیح شیری
aapko gardish-e-ayyam se Dar lagta hai

غزل

آپ کو گردش ایام سے ڈر لگتا ہے

محمد عباس سفیر

;

آپ کو گردش ایام سے ڈر لگتا ہے
اور ہمیں عشق کے انجام سے ڈر لگتا ہے

چشم ساقی کے اشارے میں نہاں کیا شے تھی
حسرت بادۂ گلفام سے ڈر لگتا ہے

زیر لب ان کے تبسم سے سکون مانگ تو لوں
اپنی ہی جرأت ناکام سے ڈر لگتا ہے

نام جو آٹھ پہر ورد زباں رہتا تھا
اب یہ وحشت ہے اسی نام سے ڈر لگتا ہے

حضرت خضر سے تھی راہبری کی خواہش
اب اسی خواہش ناکام سے ڈر لگتا ہے

منزلیں عشق کی بے خوف و خطر طے کیں ہیں
اب یہ عالم ہے کہ ہر گام سے ڈر لگتا ہے

کیوں وظیفہ سحر و شام کیا ترک سفیرؔ
کیوں خیال سحر و شام سے ڈر لگتا ہے