آپ کو بھول کے میں یاد خدا کرتا ہوں
خود انا کہتا ہوں موجود بقاء کرتا ہوں
کفر و اسلام کا موجد ہوا بندہ ہو کر
پھر وہ میں کون ہوں جو خود ہوں کہا کرتا ہوں
علم اعداد سے ہوتا ہے حجاب اکبر
ایک ہر حال میں ہوں کل میں رہا کرتا ہوں
ہوں بصارت میں نہاں عذر ہے بینائی کا
روز روشن میں ہی خود آپ رہا کرتا ہوں
بے سمجھ نام خدا کا وہ لیا کرتے ہیں
پوچھتا ہوں تو یہ کہتے ہیں سنا کرتا ہوں
جسم خاکی نہ سمجھ یار کا بس جلوہ ہے
یاد اور بھول سے میں دل کو ضیا کرتا ہوں
میں سمجھتا ہوں خدا آپ کو بندہ بن کر
ہاں اسی شان کا مرکزؔ ہوں کہا کرتا ہوں

غزل
آپ کو بھول کے میں یاد خدا کرتا ہوں
یاسین علی خاں مرکز