آپ کو اپنا بناتے ہوئے ڈر لگتا ہے
دل کی دنیا بھی بساتے ہوئے ڈر لگتا ہے
لگ نہ جائے کہیں ان پھولوں کو دنیا کی نظر
داغ دل اپنے دکھاتے ہوئے ڈر لگتا ہے
ہو نہ جائے کہیں ہنگامۂ محشر برپا
اپنی روداد سناتے ہوئے ڈر لگتا ہے
تپش حسن نہ پروانہ بنا دے مجھ کو
اس کے نزدیک بھی جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے
غرق ہو جائے نہ دنیائے تصور اپنی
اشک غم آنکھ میں لاتے ہوئے ڈر لگتا ہے
شغل تھا دشت نوردی کا کبھی اے تاباںؔ
اب گلستاں میں بھی جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے
غزل
آپ کو اپنا بناتے ہوئے ڈر لگتا ہے
انور تاباں