EN हिंदी
آپ کی نظروں میں شاید اس لیے اچھا ہوں میں | شیح شیری
aap ki nazron mein shayad is liye achchha hun main

غزل

آپ کی نظروں میں شاید اس لیے اچھا ہوں میں

ولی اللہ ولی

;

آپ کی نظروں میں شاید اس لیے اچھا ہوں میں
دیکھتا سنتا ہوں سب کچھ پھر بھی چپ رہتا ہوں میں

اس لیے مجھ سے خفا رہتی ہے اکثر یہ زمیں
آسماں کو سر پہ لے کر گھومتا پھرتا ہوں میں

خاک میں ملنا ہی اشکوں کا مقدر ہے مگر
کیا یہ کم ہے اس کی پلکوں پر ابھی ٹھہرا ہوں میں

خار ہی کو ہو مبارک خار کی عمر دراز
گل صفت ہوں بس جواں ہوتے ہی مر جاتا ہوں میں

بادلوں کو شاید اس کا کوئی اندازہ نہیں
عین دریا میں ہوں لیکن کس قدر پیاسا ہوں میں

غم زدہ دل کو ستم سے دور رکھنے کے لیے
بارہا خود اپنے ہی دل پر ستم ڈھاتا ہوں میں

کیوں وہ میرے سامنے آنے سے ڈرتا ہے ولیؔ
خامشی فطرت ہے میری ایک آئینہ ہوں میں