آپ ہی ناخدا رہا ہوں میں
آپ ہی ڈوبتا رہا ہوں میں
عشق سے آشنا رہا ہوں میں
حسن کا مدعا رہا ہوں میں
کہیں تیرا بھرم نہ کھل جائے
خود کو خود سے چھپا رہا ہوں میں
رونق دو جہاں مجھی سے ہیں
آ رہا ہوں میں جا رہا ہوں میں
جیسے کوئی بھی حق نہ ہو مجھ کو
یوں تجھے دیکھتا رہا ہوں میں
اے جنوں اب تو رہبری فرما
حرف مطلب پہ آ رہا ہوں میں
میرے ذمے ہے کس قدر مشکل
جاگتے کو جگا رہا ہوں میں
اے خدا تجھ سے کچھ نہ مانگ سکوں
یہ دعا مانگتا رہا ہوں میں
گمرہی کا مجھے نہ دے الزام
تجھ کو پہچانتا رہا ہوں میں
یہ زمانہ بھی دیکھنا تھا مجھے
تجھ سے آنکھیں چرا رہا ہوں میں
ظرف میرا بلند ہے طارقؔ
جان کر ہارتا رہا ہوں میں

غزل
آپ ہی ناخدا رہا ہوں میں
غلام رسول طارق