آپ دل جا کر جو زخمی ہو تو مژگاں کیا کرے
کوئی رکھ دے پاؤں خود خار مغیلاں کیا کرے
رات دن ہے صنعت حق کس طرح بدلیں صنم
روئے زیبا کیا کرے زلف پریشاں کیا کرے
روح گھبرا کے چلی دیکھا جو ہم کو مضطرب
میزباں ہو جب پریشاں رہ کے مہماں کیا کرے
دم نہیں تن سے نکلتا کٹ چکا بالکل گلا
سخت جانی کو ہماری تیغ جاناں کیا کرے
تیرہ بختی سے ہے شکوہ مفلسی سے ہے گلہ
روشنی ممکن نہیں شام غریباں کیا کرے
زخم دل گہرا بہت ہے کس طرح ٹانکا لگے
یاں رفو کی جا نہیں تار گریباں کیا کرے
اپنی وحشت سے ہے شکوہ دوسرے سے کیا گلہ
ہم سے جب بیٹھا نہ جائے کوئے جاناں کیا کرے
غزل
آپ دل جا کر جو زخمی ہو تو مژگاں کیا کرے
رشید لکھنوی