آپ بک جائے کوئی ایسا خریدار نہ تھا
میرے یوسف کے لئے مصر کا بازار نہ تھا
خوں ہوا اشک بنا اور مژہ سے ٹپکا
دل کہ لذت کش رنگینیٔ انکار نہ تھا
مبتلا ہوں ترا جب سے صنم کفر فروش
زلف تا دوش نہ تھی دوش پہ زنار نہ تھا
قصۂ طور کبھی گوش حقیقت سے سنو
شوق دیدار بجز حسرت دیدار نہ تھا
غازۂ چہرۂ گل نقش و نگار ہستی
کوئی قطرہ دل خوں گشتہ کا بے کار نہ تھا
لے گئی وحشت دل کل مجھے اس عالم میں
بیش از نقطہ جہاں گنبد دوار نہ تھا
لذت درد سے واقف تھا دل زار اثرؔ
ورنہ مر جانا ترے ہجر میں دشوار نہ تھا
غزل
آپ بک جائے کوئی ایسا خریدار نہ تھا
اثر لکھنوی