آپ بھی ریت کا ملبوس پہن کر دیکھیں
ہم وہ پیاسے ہیں نہ صحرا نہ سمندر دیکھیں
اک ذرا ڈھیر میں کوڑے کے بھی چھپ کر دیکھیں
لوگ ہیرا ہمیں سمجھے ہیں کہ پتھر دیکھیں
ہم میں جو شخص ہے اس سے نہیں بنتی اپنی
اب تو رہنے کے لئے اور کوئی گھر دیکھیں
شور بے سمت صداؤں کا کچھ ایسا ہے کہ ہم
اپنے اندر کبھی جھانکیں کبھی باہر دیکھیں
غزل
آپ بھی ریت کا ملبوس پہن کر دیکھیں
عزیز بانو داراب وفا