آپ اپنی ذات میں سمٹا ہوا عالم تمام
تم کو یوں جانا کہ تھا جانا ہوا عالم تمام
کل تو بیگانہ تھا لیکن آج ہے بیگانہ تر
اک سر انگشت پر رکھا ہوا عالم تمام
دسترس کا ذکر کیا ہے آگہی کی بات کیا
روبرو ہے گرد میں اڑتا ہوا عالم تمام
گر بدل جاتے تو تھی دنیا کی ہر شے حسب حال
ہم نہیں بدلے تو ہے بدلا ہوا عالم تمام
جانتا ہوں میں اگر جاگا تو یہ سو جائے گا
اب ہوں خوابیدہ تو ہے جاگا ہوا عالم تمام
انگلیوں کے پیچ سے پیچیدہ گرہیں تہ بہ تہ
ناخنوں کے درمیاں الجھا ہوا عالم تمام
اک مری خاطر جو تھے سب کے دعا گو کیا ہوئے
اف یہ محرومی کہ ہے سہما ہوا عالم تمام
غزل
آپ اپنی ذات میں سمٹا ہوا عالم تمام
نشتر خانقاہی