آپ اپنے کو معتبر کر لیں
ملنے والوں کے دل میں گھر کر لیں
زندگانی کے دن جو تھوڑے ہیں
کیوں نہ ہنس بول کر بسر کر لیں
چن رہے ہیں جو عیب اوروں کے
اپنے دامن پہ بھی نظر کر لیں
کون دیتا ہے ساتھ مشکل میں
حوصلوں ہی کو ہم سفر کر لیں
چاہئے کچھ سکون دنیا میں
خواہشیں اپنی مختصر کر لیں
بات پہنچے کسی طرح ان تک
ہم ستاروں کو نامہ بر کر لیں
جنگلوں سے ہمیں گزرنا ہے
پہلے سانپوں کو بے ضرر کر لیں
چلئے جادوگروں کی بستی میں
اپنے عیبوں کو بھی ہنر کر لیں
آؤ دکھ درد بانٹ لیں اعجازؔ
رنج و غم کو ادھر ادھر کر لیں
غزل
آپ اپنے کو معتبر کر لیں
غنی اعجاز