EN हिंदी
آپ آئے تو خیال دل ناشاد آیا | شیح شیری
aap aae to KHayal-e-dil-e-nashad aaya

غزل

آپ آئے تو خیال دل ناشاد آیا

ریاضؔ خیرآبادی

;

آپ آئے تو خیال دل ناشاد آیا
آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا

عرش سے آج اثر تا لب فریاد آیا
ایک ہی آہ میں کافر کو خدا یاد آیا

جور کے ساتھ تیرا لطف بھی کچھ یاد آیا
ہونٹ پر بن کے ہنسی شکوۂ بیداد آیا

آج شب میں کوئی سو بار تو بجلی چمکی
آج دن میں کوئی سو بار تو صیاد آیا

میرے دل میں عجب انداز سے آیا ناوک
میں یہ سمجھا کوئی معشوق پری زاد آیا

کیا کہا پھر تو کہو بھول گئے ہم کس کو
صدقے اس کے جو تمہیں بھول کے یوں یاد آیا

فتنۂ حشر نے بھی اٹھ کے بلائیں لے لیں
عجب انداز سے میرا ستم ایجاد آیا

سن سے جھونکا کوئی آیا جو ترا باد بہار
چونک اٹھے مرغ چمن ناوک صیاد آیا

ارے قاتل ابھی بہہ جائے گا پانی ہو کر
سامنے میرے اگر خنجر فولاد آیا

یہی گلشن کی ہوا ہے یہی گلشن کی بہار
کبھی صیاد کبھی ناوک بیداد آیا

نظر آتی ہیں کہیں ایسی بھی کافر شکلیں
دیکھ کر حسن خداداد خدا یاد آیا

پاس سے نیم نگہ دور سے مژگان دراز
چبھنے والے نئے نشتر لئے فصاد آیا

نہ سنا ہم نے کبھی باغ میں آئی ہے بہار
جو سنا بھی تو سنا ہم نے کہ صیاد آیا

کیوں نگاہیں یہ گڑھی ہیں شکن دامن پر
صدقے انداز حیا کے تجھے دل یاد آیا

آشیاں برق کو سونپا مجھے آئی جو ترنگ
اور میں اڑ کے ادھر تا کف صیاد آیا

اثر آیا بھی تو جیسے کوئی فریادی ہو
ہاتھ میں تھامے ہوئے دامن فریاد آیا

دست ماتم لئے بیٹھی رہی شیریں اپنے
تیشہ اچھا کہ ترے کام تو فرہاد آیا

ایسی ضد ہے تو انہیں کون منائے یا رب
وہ یہ مچلے ہیں کہ کوئی مجھے کیوں یاد آیا

لئے خنجر کی روانی تھی ہر اک موج خرام
آج مقتل میں نئی شان سے جلاد آیا

میں جو پہنچا تو لئے اٹھ کے بگولوں نے قدم
نجد میں دھوم مچی قیس کا استاد آیا

بڑھ کے لے حلقۂ آغوش میں اے دست جنوں
بیڑیاں کاٹنے کس لطف سے حداد آیا

ڈر کے صحرائے بلا سے جو پکارا میں نے
قیس نے دی مجھے آواز کہ فرہاد آیا

صدقے ہونٹوں کے جنہیں ناز مسیحائی ہے
صدقے باتوں کے جنہیں شیوۂ جلاد آیا

دے اٹھیں خون رگیں نام جو نشتر کا لیا
رنگ ایسا مری تصویر میں بہزاد آیا

طفل اشک آ کے مری گود میں مچلے جو ریاضؔ
دل مرحوم مجھے آج بہت یاد آیا