EN हिंदी
آؤ کہ ابھی چھاؤں ستاروں کی گھنی ہے | شیح شیری
aao ki abhi chhanw sitaron ki ghani hai

غزل

آؤ کہ ابھی چھاؤں ستاروں کی گھنی ہے

شہرت بخاری

;

آؤ کہ ابھی چھاؤں ستاروں کی گھنی ہے
پھر شام تلک دشت غریب الوطنی ہے

کچھ بھی ہو مگر حسن کی فطرت میں ابھی تک
پابندیٔ رسم و رہ خاطر شکنی ہے

مت پوچھ کہ کیا رنگ ہے ضبط غم دل میں
ہر اشک جو پیتا ہوں وہ ہیرے کی کنی ہے

شاعر کے تخیل سے چراغوں کی لوؤں تک
ہر چیز تری بزم میں تصویر بنی ہے

تم جس کو بہت سمجھے تو اک بوند لہو کی
پوچھو مرے دامن سے عقیق یمنی ہے

معلوم ہوا جب کہ رہا کچھ بھی نہ دل میں
بس ایک نظر قیمت دنیائے دنی ہے

ابلیس ہو سقراط ہو سرمد ہو کہ منصور
خود آگہی ہر شکل میں گردن زدنی ہے

مقصود نہ بلبل ہے نہ طوطی ہے نہ قمری
مطلب تو چمن والوں کا ناوک فگنی ہے

آسائش گیتی ہے سزا بے ہنری کی
آزردگیٔ دل صلۂ خوش سخنی ہے

کن پھول فضاؤں کی توقع میں پڑے ہو
ہشیار کہ یاں ذوق صبا شعلہ زنی ہے

آؤ چلیں اس انجمن بوالہوساں سے
آتش نفسی ہے نہ جہاں گل بدنی ہے

شہرتؔ سے کبھی جان طلب کر کے تو دیکھو
ہر چند تہی دست ہے پر دل کا غنی ہے