آنسو کی طرح پونچھ کے پھینکا گیا ہوں میں
تارا ہوں اور زمیں پہ گرایا گیا ہوں میں
قربان گاہ غم پہ چڑھانے کے واسطے
بچپن میں کتنے پیار سے پالا گیا ہوں میں
تابش گریزیوں کو مجال نظر کہاں
چشمہ لگا کے دھوپ کا دیکھا گیا ہوں میں
گو ماورائے وقت بھی ہے مجھ میں ایک چیز
میزان صبح و شام میں تولا گیا ہوں میں
دم لے کے لوٹ جاؤں گا او میزباں زمیں
قاصد بنا کے دور سے بھیجا گیا ہوں میں
اے ساکنان شہر خموشان زندگی
پیغام حشر دے کے اتارا گیا ہوں میں
منزل کی قدر ہوتی ہے آوارگی کے بعد
جنت سے اس لیے بھی نکالا گیا ہوں میں
کوثرؔ لباس قہر میں اتری ہیں رحمتیں
ٹھوکر لگا کے راہ پہ لایا گیا ہوں میں

غزل
آنسو کی طرح پونچھ کے پھینکا گیا ہوں میں
رشید کوثر فاروقی