EN हिंदी
آنسو کی ایک بوند پلک پر جمی رہی | شیح شیری
aansu ki ek bund palak par jami rahi

غزل

آنسو کی ایک بوند پلک پر جمی رہی

قمر صدیقی

;

آنسو کی ایک بوند پلک پر جمی رہی
پھر اس کے بعد ساری فضا شبنمی رہی

ترک تعلقات میں اس کی خطا بھی تھی
تھوڑی بہت وفا میں ادھر بھی کمی رہی

بادل غموں کے کب سے برس کر چلے گئے
آنکھوں میں اس سبب سے ابھی تک نمی رہی

اوپر سے زخم ہجر کو تو ہم نے بھر دیا
اندر سے کیفیت تو مگر ماتمی رہی

یاران رفتہ یوں بھی بہت تیز گام تھے
اور ہم چلے تو پاؤں کی گردش تھمی رہی