آنسو بھی بہا کر دیکھ لیے سوز غم پنہاں کم نہ ہوا
دل میں تری الفت کا شعلہ شعلہ ہی رہا شبنم نہ ہوا
دنیا کی بہاروں میں کھو کر میں اپنی نظر سے چھپ جاتا
صد شکر دل آگاہ مرا دل بن گیا جام جم نہ ہوا
تھا داغ تمنا روح شکن کچھ ہمت غم کام آ ہی گئی
دل میں تو بڑے طوفان اٹھے آنسو نہ بہے ماتم نہ ہوا
ہم شکر ستم یوں کرتے ہیں جیسے کوئی نعمت مل جائے
لیکن یہ ترا انداز نظر نشتر ہی رہا مرہم نہ ہوا
بکھرے ہوئے تنکے چن چن کر تعمیر نشیمن کر تو لیا
تعمیر نشیمن سے لیکن احساس تباہی کم نہ ہوا
کافی ہے فریدیؔ کو وہ نظر جو مرہم زخم ہستی ہے
تو نے جسے اپنا غم بخشا پھر اس کو کسی کا غم نہ ہوا
غزل
آنسو بھی بہا کر دیکھ لیے سوز غم پنہاں کم نہ ہوا
مغیث الدین فریدی