آنسوؤں سے خون کے اجزا بدلتے جائیں گے
دل کے سب ارمان آنکھوں سے نکلتے جائیں گے
اک قیامت ہے عبارت وعدۂ دیدار کی
دن گزرتے جائیں گے معنی بدلتے جائیں گے
ہر نفس ہے شمع غم کا شعلہ میں جو کچھ کہوں
مثل پروانہ مرے الفاظ جلتے جائیں گے
ہے دگر گوں حال دل قاصد ہمیں بھی ساتھ لے
جابجا خط کی عبارت ہم بدلتے جائیں گے
عشق کی وادی میں ناطقؔ گر کے مرنا ہے ضرور
ہر قدم پر کب تک آخر ہم سنبھلتے جائیں گے
غزل
آنسوؤں سے خون کے اجزا بدلتے جائیں گے
ناطقؔ لکھنوی