آنسوؤں کو روکتا ہوں دیر تک
دھند میں کیا دیکھتا ہوں دیر تک
کھل گئی الفاظ کی ہیں کھڑکیاں
کھڑکیوں سے جھانکتا ہوں دیر تک
پیڑ سے عشق گلہری دیکھ کر
اس گلی میں دوڑتا ہوں دیر تک
خامشی بھی کوئی جھرنا ہے اگر
کس لئے پھر بولتا ہوں دیر تک
چیونٹیوں کے بل میں پانی ڈال کر
کیوں تماشا دیکھتا ہوں دیر تک
غزل
آنسوؤں کو روکتا ہوں دیر تک
غنی غیور