EN हिंदी
آنکھوں سے وہ کبھی مری اوجھل نہیں رہا | شیح شیری
aankhon se wo kabhi meri ojhal nahin raha

غزل

آنکھوں سے وہ کبھی مری اوجھل نہیں رہا

سعادت سعید

;

آنکھوں سے وہ کبھی مری اوجھل نہیں رہا
غافل میں اس کی یاد سے اک پل نہیں رہا

کیا ہے جو اس نے دور بسا لی ہیں بستیاں
آخر مرا دماغ بھی اول نہیں رہا

لاؤ تو سرّ دہر کے مفہوم کی خبر
عقدہ اگرچہ کوئی بھی مہمل نہیں رہا

شاید نہ پا سکوں میں سراغ دیار شوق
قبلہ درست کرنے کا کس بل نہیں رہا

دشت فنا میں دیکھا مساوات کا عروج
اشرف نہیں رہا کوئی اسفل نہیں رہا

ہے جس کا تخت سجدہ گہہ خاص و عام شہر
میں اس سے ملنے کے لیے بے کل نہیں رہا

جس دم جہاں سے ڈولتی ڈولی ہی اٹھ گئی
طبل و علم تو کیا کوئی منڈل نہیں رہا