EN हिंदी
آنکھوں سے خون اپنے یہ کہتا نہیں نہ جائے | شیح شیری
aankhon se KHun apne ye kahta nahin na jae

غزل

آنکھوں سے خون اپنے یہ کہتا نہیں نہ جائے

میر حسن

;

آنکھوں سے خون اپنے یہ کہتا نہیں نہ جائے
پر ساتھ اس کے لپٹا ہوا دل کہیں نہ جائے

اتنی تو چاہئے تجھے پاس شکستہ دل
جو آوے تیرے یاں سو وہ اندوہگیں نہ جائے

صبر و قرار و ہوش و خرد سب کے سب یہ جائیں
پر داغ عشق سینہ سے اے ہم نشیں نہ جائے

دیر و حرم میں جا کے جو چاہے پھر آ سکے
پر آوے جو گلی میں تری وہ کہیں نہ جائے

ہم گریہ ناک ہیں یہ سدا سے ہے عیب پوش
آنکھوں سے دور اپنے کہیں آستیں نہ جائے

ہے پارۂ عقیق جگر دیکھیو کہیں
اے چشم تیرے ہاتھ سے ایسا نگیں نہ جائے

نکلے نہ جان تن سے حسنؔ کی تو تب تلک
جب تک تو اس کے سر پہ دم واپسیں نہ جائے