آنکھوں سے دور صبح کے تارے چلے گئے
نیند آ گئی تو غم کے نظارے چلے گئے
دل تھا کسی کی یاد میں مصروف اور ہم
شیشے میں زندگی کو اتارے چلے گئے
اللہ رے بے خودی کہ ہم ان کے ہی رو بہ رو
بے اختیار انہی کو پکارے چلے گئے
مشکل تھا کچھ تو عیش کی بازی کا جیتنا
کچھ جیتنے کے خوف سے ہارے چلے گئے
ناکامئ حیات کا کرتے بھی کیا گلہ
دو دن گزارنا تھے گزارے چلے گئے
ترغیب ترک شوق کے پردے میں غم گسار
ہر نقش آرزو کو ابھارے چلے گئے
پہنچائی کس نے دعوت مے اہل زہد کو
شاید تری نظر کے اشارے چلے گئے
وہ دل حریف جلوۂ-فردوس بن گیا
جس دل میں تیرے غم کے شرارے چلے گئے
ان کے بغیر زیست بہ ہر حال زیست تھی
جیسی گزارنی تھی گزارے چلے گئے
جلوے کہاں جو ذوق تماشا نہیں شکیلؔ
نظریں چلی گئیں تو نظارے چلے گئے
غزل
آنکھوں سے دور صبح کے تارے چلے گئے
شکیل بدایونی