آنکھوں سے برستے اشکوں کی برسات پہ رونا آتا ہے
نادانیٔ الفت کر بیٹھے اس بات پہ رونا آتا ہے
ہر سانس ہے اک تلوار بنی ہر نفس ہے غم کا پیمانہ
کرتے ہیں محبت جو ان کو کانٹوں پہ بھی سونا آتا ہے
اب دل کو ہے سمجھانا مشکل جو ٹوٹ گیا سو ٹوٹ گیا
کیا بات بنے گی ہنسنے سے ہنستے ہیں تو رونا آتا ہے
بخشے ہیں تو نے لاکھ ستم غم مجھ کو دیئے ہیں تیرا کرم
ہم کو بھی غموں کے تیروں کو سینے میں چبھونا آتا ہے
بہتے ہوئے اشکو رک جاؤ ارمان کے دھارو تھم جاؤ
دیکھو تو تصور میں میرے ساجن وہ سلونا آتا ہے

غزل
آنکھوں سے برستے اشکوں کی برسات پہ رونا آتا ہے
نیرآثمی