آنکھوں نے بہت دن سے قیامت نہیں دیکھی
مدت ہوئی اچھی کوئی صورت نہیں دیکھی
چہروں کی طرح کس لیے مرجھائے ہوئے ہیں
پھولوں نے تو ہم جیسی مصیبت نہیں دیکھی
وہ شہر سے گزرا تھا فقط یاد ہے اتنا
پھر کوئی بھی دستار سلامت نہیں دیکھی
لوٹے جو مسافت سے تو میں اس سے یہ پوچھوں
بستی تو کوئی راہ میں غارت نہیں دیکھی
گرتے ہوئے پتوں کی صدائیں مرے دل سے
کہتی ہیں کہ تو نے کوئی ہجرت نہیں دیکھی
غزل
آنکھوں نے بہت دن سے قیامت نہیں دیکھی
اسعد بدایونی