آنکھوں میں زندگی کے تماشے اچھال کر
اے غربت نگاہ نہ اتنے سوال کر
رہنے دے آسمان کو اک پردۂ خیال
لیکن زمیں کو سایۂ جنت بحال کر
کوئی طلب نہیں ہے تری بارگاہ سے
ہم بے خیال آئے ہیں اتنا خیال کر
آرام جاں ہیں ہم کو یہی سرسراہٹیں
پچھتانے والے ہم نہیں سانپوں کو پال کر
آ رکھ دے ہاتھ سینۂ آتش مزاج پر
کب تک رکھیں گے تیری امانت سنبھال کر
وہ بے زباں غریب نہ کھا جائے کوئی تیر
بے چپن ہو گیا ہوں کبوتر اچھال کر
اعجازؔ اب کے سرخ گلابوں سے کام لے
تیشے کی آس چھوڑ دے پتھر کو لعل کر

غزل
آنکھوں میں زندگی کے تماشے اچھال کر
رشید اعجاز