آنکھوں میں نئے رنگ سجانے نہیں اترے
اک عمر ہوئی خواب سہانے نہیں اترے
آکاش پہ اڑتے رہے پانی کے پرندے
کھیتوں کی مرے پیاس بجھانے نہیں اترے
ہر موج تھی بے چین بہکنے کو کبھی سے
خود آپ ہی دریا میں نہانے نہیں اترے
بے نور ہیں چہرے یہاں مایوس ہے ہر دل
امید کی کرنوں کے خزانے نہیں اترے
وعدہ کیا کس طرح وفا آپ نے اس بار
کیا ذہن کی وادی میں بہانے نہیں اترے
غزل
آنکھوں میں نئے رنگ سجانے نہیں اترے
گرجا ویاس