EN हिंदी
آنکھوں میں خواب رکھ دئے تعبیر چھین لی | شیح شیری
aankhon mein KHwab rakh diye tabir chhin li

غزل

آنکھوں میں خواب رکھ دئے تعبیر چھین لی

ارشد جمال حشمی

;

آنکھوں میں خواب رکھ دئے تعبیر چھین لی
اس نے خطاب بخش کے جاگیر چھین لی

غم یہ نہیں کہ بخت نے برباد کر دیا
غم ہے تو یہ کہ خواہش تعمیر چھین لی

دستار مصلحت تو یوں بھی سر پہ بوجھ تھی
اچھا کیا کہ تم نے یہ توقیر چھین لی

یہ کس کی بد دعا کی ہے تاثیر یا خدا
جس نے مری دعاؤں سے تاثیر چھین لی

قدر و قضا کا ذکر کچھ اس طرح سے کیا
واعظ نے نوک ناخن تدبیر چھین لی

شہرت ملی تھی جرأت تقریر سے جسے
شہرت نے اس سے جرأت تقریر چھین لی

بت بن گیا تو اس کی نمی ختم ہو گئی
بھکتوں نے اس کی خاک سے اکسیر چھین لی

اندیشۂ عتاب سے یار اور ڈر گئے
قاتل سے ہم نے بڑھ کے جو شمشیر چھین لی

بے نطق تھی تو کہتی تھی کیا کیا نہ داستاں
گویائی نے تو حیرت تصویر چھین لی

رہنے لگا ہے وہ بڑا چپ چپ سا ان دنوں
ارشدؔ سے کس نے شوخیٔ تقریر چھین لی