آنکھوں میں اک خواب ہے اس کو یہیں سجاؤں گا
تھوڑی زمیں ملی تو اک دن باغ لگاؤں گا
شہر جو تم یہ دیکھ رہے ہو اس میں کئی ہیں شہر
میرے ساتھ ذرا نکلو تو سیر کراؤں گا
میرے لیے یہ دیوار و در جیسے ہیں اچھے ہیں
اس گھر کی آرائش کر کے کسے دکھاؤں گا
ساری دنیا دیکھ رہی ہے خوشیوں کے انبار
اتنی دولت مت دے مجھ کو کہاں چھپاؤں گا
یہ جو اندھیرا پھیل رہا ہے جسم و جاں کے بیچ
اور گھنیرا ہو جائے تو دیا جلاؤں گا
غزل
آنکھوں میں اک خواب ہے اس کو یہیں سجاؤں گا
عبید صدیقی