آنکھوں میں ہجر چہرے پہ غم کی شکن تو ہے
مجھ میں سجی ہوئی مگر اک انجمن تو ہے
سانسوں کو اس کی یاد سے نسبت ہے آج بھی
مجھ میں کسی بھی طور سہی بانکپن تو ہے
ہر صبح چہچہاتی ہے چڑیا منڈیر پر
ویران گھر میں آس کی کوئی کرن تو ہے
ممکن ہے اس کا وصل میسر نہ ہو مجھے
لیکن اس آرزو سے مرا گھر چمن تو ہے
ہر وقت محو رقص ہے چہرہ خیال میں
بے ربط زندگی ہے مگر دل مگن تو ہے
ہر لمحہ اس سے رہتا ہوں مصروف گفتگو
کہنے کو میرے ساتھ کوئی ہم سخن تو ہے
میرے لیے یہ بات ہی کافی ہے اے روشؔ
کچھ بھی ہو مجھ میں اب بھی مرا اپنا پن تو ہے
غزل
آنکھوں میں ہجر چہرے پہ غم کی شکن تو ہے
شمیم روش